Moot ka raks urdu poetry written by Dr. Nayab Hashmi

 موت کا رقص 

ڈاکٹر نایاب ہاشمی 


زندگی کی بساط کیا ہے 

چند لمحوں کا کھیل سارا 


ایک وائرس نے ادھم مچایا

 کھیل موت کا ہے رچایا


آکسیجن کو ترس رہے لوگ

سسک سسک کر مر رہے لوگ 


تڑپتی زندگانیاں یہ دیکھو 

بلک بلک کر رو رہے لوگ 


جگہ دواخانوں میں نہ ملی تب 

سڑک کنارے بھی مر رہے لوگ 


تماش بیں جب تماشا دیکھے 

ہم موت کا یوں ہی سناٹا دیکھے 


ارباب اقتدار سب کچھ جانے 

مسند پر بیٹھے تماشا دیکھے 


زندگی ہماری ارزاں ہوئی ہے

موت چوکھٹ پہ آئی ہوئی ہے


کھیت میدان و گھر کے باہر 

 جنگلوں میں لاشیں پڑی ہوئی ہے 


 ماں باپ کو چھوڑ کے اولاد بھاگے

اولاد کو چھوڑ کے ماں باپ بھاگے 


قیامت میں ہوگی جو نفسا نفسی 

نایاب ہورہی ہے وہی نفسا نفسی

2 comments: