Betiyan Mann ka Aks hoti hain urdu column written by Ashi Khokhr Sialkot

عاشی کھوکھر سیالکوٹ 

بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں۔۔ 

پہلی دفعہ اس موضوع پہ لکھنے لگی ہوں کہنے کوتو یہ اک بڑا آسان سا ٹاپک ہے مگر اس کو بیان کرنا بہت مشکل کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس ٹاپک پہ بات تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے لوگوں کو ایسا کرنے میں شرم نہیں  آتی تو مجھے لکھنے میں پھر شرم کیوں آۓ میں اک گاؤں میں رہنے والی پینڈو سی لڑکی ہوں جن کے لیے عزت سے بڑھ کہ کچھ بھی نہیں ہوتا  والدین کی اور اپنی عزت جان سے بھی پیاری کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں اور عزتیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور ایک بیٹی کی عزت سب کی عزت ہمیں بچپن سے ایک چیز سکھائی جاتی ہے کہ بیٹی اک سفید چادر ہوتی ہے جس پہ لگا ہلکا سا داغ بھی بہت واضح نظر آتا ہے لوگ پوری سفید چادر چھوڑ کہ اس داغ پہ سوال کریں گے بالکل ایسے جیسے مکھی پورا خوبصورت جسم چھوڑ کہ زخم پہ آ کے بیٹھتی ہے۔والدین کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے تو بیٹی کی وجہ سے اور شرم سے جھکتا ہے تو بیٹی کی وجہ سے بیٹیوں کی قسمت اور نصیب سے والدین ڈرتے ہیں کیونکہ جب کسی کی بیٹی سُسرال سے  گھر  واپس آ جاۓ تو وہ جیتے جی مر جاتے ہیں۔۔ 

میں زیادہ دور کی بات نہیں کرتی اپنے ان ایریاز کی بات کر رہی ہوں جو ہمارے آس پاس ہیں یہاں  یہ حال ہے تو سوچیں دوردراز کے علاقوں میں کیا حال ہوگا دعا ہے خدا سب کو نیک ہدایت دے آمین

اللہ معافی دے کہنا تو نہیں چاہیے کیونکہ بیٹیاں اور عزتیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں مولا سب کی عزتوں کی حفاظت فرماۓ آمین مگر شاید کچھ لوگوں کو خدا یاد نہیں یا انہیں موت بھول گئی دنیا کی لذتوں میں اور گندگی میں ایسے کھوۓ ہیں کہ اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھے ہیں آج نکاح اتنا مشکل اور زنا آسان بن گیا ہے ظاہر سی بات ہے جب کسی کو صاف اور حلال کھانا نہیں ملے گا تو وہ حرام گندگی اور کُوڑے میں منہ ضرور مارے گا جب خدا نے اتنا پاک صاف پیارا رشتہ نکاح کا رکھا ہے تو کیوں لوگ زنا کی طرف مائل ہو رہے؟ یہ سچ ہے کہ حرام اور شیطانی کاموں میں لذت اور وقتی مزہ بہت ہے مگر دوسری طرف عذابِ الہی کو سرِعام دعوت ہے آج نہ کنواروں کو خدا یاد ہے نہ شادی شدہ کو نہ بیوہ کو اور نہ ہی رنڈوا کو اک چھوٹی سی غلطی زندگی بھر کے لیے لعنتوں کا رخ اپنی طرف کروانے کے لیے کافی ہوتی ہے کیونکہ جب ایک لڑکی بہکتی ہے تو پورا خاندان منہ کہ بل گرتاہے اور عمر بھر کے لیے سر شرم سے جُھک جاتا ہے وہ والدین جیتے جی مر جاتے ہیں جنکی بیٹیاں انکی سالوں سے بنی عزت کو اک پل میں داغدار کر کہ نکل جاتی ہیں گھروں سے چلے جانا صرف اس لیے کہ اپنی مرضی سے شادی کر سکیں شادی تو والدین نے بھی کرنی ہوتی ہے جنہوں نے پیدا کیا پڑھایا لکھایا اس قابل بنایا کہ آپ پوری دنیا میں بات کر سکیں کیا انہیں آپکی شادی کی فکر نہیں کیا انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے کیا وہ اپنا فرض بھول بیٹھے ہیں؟ہرگز ایسا نہیں وہ ہم سے زیادہ فکرمند ہیں زیادہ پریشان ہیں کیونکہ اولاد کے بارے میں کل قیامت کے دن والدین سے پوچھا جاۓ گا جو جوابدہ ہو اسے ٹینشن زیادہ ہوتی ہے ناجانے کیوں لوگ اس بات کو پس ِپشت  ڈال کر اپنی دنیا تو برباد کرتے ہیں اپنی آخرت بھی تباہ کر لیتے ہیں وہ والدین جنہوں نے آپکی پیدائیش سے لے کے آپکی جوانی تک ایسی کونسی تکلیف جو سہی نہ ہو بالکل ایسے ہے جیسے آپ کوئی پودا لگائیں اسکی ہر طرح سے دیکھ بھال کریں ہر موسم سے اسے بچائیں نقصان پہنچانے والے کیڑوں اور جانوروں سے محفوظ رکھیں اور دیرینہ حفاظت کے بعد آخر وہ دن آۓ جب وہ اک بہت بڑا درخت بن جاۓ اور پھل دینے کے قابل ہو جاۓ اس درخت کے ساتھ اس کے لگانے والے کی سدریں امیدیں آسیں سبھی جوان ہو جاتی ہیں آنکھیں ترس جاتی ہیں اس کو پھل کے ساتھ دیکھنے کو آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب وہ درخت پھل آور ہوگیا پھر اک ایسا شخص آتا ہے جو چار دن اسکی دیکھ بھال کر کے اسے اپنا بنا لیتا ہے ارےے یہ کیا اس درخت کوتو پھل سمیت کوئی اور لے گیا۔۔ کیا ہوا؟دکھ ہو رہا؟تکلیف ہو رہی؟ ارے یہ تکلیف کچھ بھی نہیں اُن والدین کی تکلیف کے آگے جو اٹھارہ بیس سال تک اپنی بیٹی کو پالتے ہیں اسے ضرورت کی ہرچیز مہیا کرتے ہیں تو کوئی کمینہ اس کی زندگی میں آکے چار دن میٹھی باتیں کر کے آنکھوں میں بےنام سی محبت کے سپنے سجا کر دل کو نئی دنیا کے رنگ دکھا کر دھوکے اور فریب کی پٹی آنکھوں پہ باندھ کے ذلت ورسوائی کے اندھے کنویں میں دکھیل دے تو یہ لڑکیاں بخوشی اس کے ساتھ اس کنویں میں کُود جاتی ہیں اپنے والدین کی تربیت کو بُھلا کر انکی شفقت محبت پیار قربانیاں جو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے دی ہوتی سب پس ِپشت ڈال کر اپنی اور والدین کی عزت کو داغدار کر دیتی ہیں اک دوست نے بتایا کہ پچھلے مہینے اس کی دور کی اک کزن کی شادی ہوئی تو شادی کی پہلی رات ہی اس کے شوہر نے اسے طلاق دے کے گھر بیھج دیا جانتے ہیں وجہ کیا بنی قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے فرمایا "تم ان کے لباس ہو وہ تمہارا لباس ہیں" اور لباس نیا اور استعمال شدہ ہو پتہ چل جاتا ہے اسی وجہ سے اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی یہ صدمہ باپ سے برداشت نہ ہوا ہارٹ اٹیک سے اس دنیا سے چل بسا۔ قصور کس کا تھا؟ بیٹی بسنے سے پہلے اُجڑ کہ گھر آجاۓ بیٹی کی ڈولی رخصت کرتے ہی باپ کا جنازہ اٹھ جاۓ کون ذمہ دار اس سب کا؟ ہم ماشااللہ سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ۔مرد کے کردار لباس اور جسم پہ چاہے کتنے ہی داغ لگے ہوں اک غسل کے بعد پاک ہوجاتا ہے جبکہ عورت کے کردار پہ لگا ہلکا سا داغ بھی قبر کی دیواروں تک ساتھ جاتا ہے دنیا بھولتی نہیں سامنے والے کی آنکھ میں ہلکا سا تنکا بھی بڑاواضح نظر آتا ہے جبکہ اپنی پوری آنکھ ضائع ہو جاۓ کسی کو فکر ہی نہیں جو لڑکیاں ایسے والدین کی عزت مٹی میں ملا کر اپنی یاروں کے سنگ چلی جاتی ہیں وہ والدین جیتے جی مر جاتے ہیں خدا اولاد دے تو نیک دے ورنہ ایسی اولاد سے بے اولاد اچھے پچاس سے ساٹھ فیصد لڑکیاں  جنہیں نہ اپنی نہ والدین کی عزت کی کوئی پرواہ ہوتی  کالجز میں جاتی ہیں ہر دوسرے دن اک نیا بوۓفرینڈ بناتی ہیں اور دنیاوی لذتوں اور نفس کی تسکین  اور اس دنیا کی دولت  کے لیے کتنوں کی راتیں رنگین بناتی ہے اور اپنی قبر کے اندھیروں کو مذید گہرا اور بھیانک کرتی ہیں ایسا بھیانک کہ جہنم بھی پناہ مانگے کیا انہیں خدا یاد نہیں یاد رکھیے جو لڑکیاں آج ایسی ہیں نہ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں یقیناًان کے والدین بھی ایسےہی ہونگے کیونکہ جو کسی کی زندگی سے کھیلتا ہے اس کا قرض وہ اپنے گھر سے ادا کرتا ہے مکافاتِ عمل ہے یہ دنیا اچھا کرے یا بُرا کسی کے ساتھ وہ پلٹ کر واپس آ جاتا ہے آپ بہت قیمتی ہیں خود کو یوں بے مول نہ کریں عزت بہت مہنگی چیز ہے ایک بار چلی جاۓ تو زندگی بھر واپس نہیں آتی

1 comment: