Sabar Azmaish hai ya azaab written by Swair Arif Mughal
موضوع : صبر آزمائش ہے یا عذاب؟
نام : سویرا عارف مغل
سچ کہوں تو صبر ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں جو اسے جھیلنے میں دشواری محسوس کرتے اور اس دوران ناشکری سے کام لیتے ہیں
گھبرا جانا ہر مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ۔
جلدبازی سے تو کوئی کام حل نہیں ہوتا
لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہ بات آج کل کوئی نہیں سمجھتا
اور اگر ہم کسی کو سمجھانا چاہیں تو وہ ہمیں کدورت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتا ہے ہم کسی کے خیرخواہ بن جائیں ادھر تو وہ ہمیں گرا ہوا سمجھ لیتا ہے. یہی ہے دنیا کی تلخ اور افسوس ناک حقیقت ۔
تو درحقیقت صبر ایک آزمائش ہے جو اللّہ پاک کی طرف سے بندوں کو دی جاتی ہے۔
وہ آزمائش مال ، اولاد ،املاک، والدین،رشتہ دار ،بہن بھائی کسی بھی صورت میں لی جاسکتی ہے۔
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایک بندے کو اپنے رب پر کتنا کامل توکل ہے ۔
کیا وہ اپنے رب کی رضا میں راضی ہے ؟
کیا جو دکھ تکلیفیں اس کو مل رہی ہیں کیا وہ ان کو صبر سے اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہوئے برداشت کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔
اور بےشک میرا رب کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا!
تو اگر زندگی میں پریشانیاں آئیں یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے ہر انسان کی زندگی میں بےشمار مسائل اور تکلیفیں روز بروز آتی ہیں وہاں ہمیں ڈٹ کر ان مقابلہ کرنا چاہئیے اور اس کو ایک میشن سمجھ کر کمپلیٹ کرنا چاہئیے
اور یہ تکالیف انسان کو انسان کی صورت میں کسی بیماری کی صورت میں ہی ملتے یا چلیں فرض کرلیں کسی خسارے کی صورت میں
ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔
یہ تکلیفیں بھی اکثر تو انسان کی اپنی ہی پالی ہوئی ہوتی ہیں
وہ امیدیں انسان کو جلا کر راکھ کر ڈالتی ہیں جو انسان دوسروں سے لگاتا ہے۔
انسان کو امید صرف اپنے رب سے رکھنی چاہئے جو ذات پاک اس کی مشکل میں ہر کام میں اس کا ساتھ دیتی ہے۔
اور توکل بھی فقط اسی کی ذات پر رکھے۔
جب انسان ڈگمگا جاتا ہے اپنے رب سے دور ہوجاتا ہے
تو وہ پھر بہت بہک جاتا ہے اس صورت میں اسے سیدھی راہ دیکھانے اور اس پر چلانے کے لیے اس کو کچھ آزمائشوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اس کو ایسی صورت سے سوائے رب کوئی نہیں نکال سکتا ۔
ایک انسان کو تو اتنا بھی حوصلہ نہیں کہ وہ دوسرے کو برداشت بھی کرے ۔
آج کل کا انسان تو اس طیش میں بیٹھا ہوتا کہ کب اس کو موقع ملے تو میں اپنی بھڑاس جو بھی حسد دل کا ہے وہ نکالوں۔
اپنے کیے کا زمہ دار ہر شخص خود ہے۔
لیکن ہم یہ سوچ کر دوسروں کو اذیتیں دیتے جائیں کہ ہم پر جب آیا تگا صبر تو وہ بس آزمائش تھی ۔
تو درحقیقت یہ پھر عذاب ہے ۔
کیونکہ جو مخلوق خدا سے انسیت نہیں رکھتا اپنے دھن اور دولت کے نشے میں چور ہوکر دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتا کوئی سوالی اس کے در پہ آجائے تو وہ اپنے عیش وعشرت کے نشے میں اسے غرور و تکبر میں آکر پانی بھی نہیں دیتا اپنی انا آج کل ان انسانوں نے اتنی بڑھا لی ہے کہ وہ کہتا میرے آگے کوئی بات کرے تو وہ کرکے جائے قدر ۔
میرے نظریے کے مطابق لعنت ہے ایسے پیسے پر جہاں آپ کی پاس کسی غریب کے لیے کوئی گنجائش نا ہو!
اور یہ یاد رکھیں یہ آزمائشیں بھی فقط غریبوں کے لیے نہیں ہے سو اللہ سے ڈریں آپ امیر ہیں تو آپ کو کس بات کا گھمنڈ جو رب دے سکتا ہے وہ زات جب چھیننے پہ آئے تو بادشاہ بھی خالی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں!
کیونکہ وہ ذات سب سے بڑی اور بزرگی والی ہے۔
مصیبتیں دکھ تکلیفیں فقط ہم عام انسانوں پر نہیں آتی ۔
یہ بڑے بڑے نبیوں ، پیغمبروں ،اولیائے کرام ،علمائے کرام یہ بڑی بڑی ہستیوں نے جھیلے ہیں اور وہ جب جاکر ان مقامات تک پہنچے ہیں!
تو جو ذات آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے تو سوائے اس کے آپ کو اس سے کوئی نہیں نکال سکتا تو بس اپنے رب سے رجوع کریں اس کی حمد و ثناء کریں ۔
کیونکہ یہ دنیا فانی ہے ۔
یہاں بس آپ کو تکلیفوں کے سوا کچھ نہیں ملنا
ابھی بھی وقت ہے کیوں نا ہم اپنے اس خالق حقیقی کی جانب چل پڑیں جہاں ہر آنسو کا اجر جہاں ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا رب ہے ۔
انسان رو رو کر ٹھوکریں کھا کھا پھر آخر جاتا تو اپنے رب کے پاس ہی ہے نا کیونکہ یہ دنیا فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اور آخر میں بھی ہم سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
اللہ اکبر کبیرا ۔
جزاک اللّہ ۔
No comments