urdu poetry Khamoshi written by Bia Mehmood



 خاموشی 

مجھے اب چپ ہی رہنے دو 

نہ چھیڑو درد کے قصے 

کہ اب نہ لکھ میں پاؤں گی 

کہ کیسے درد ملے مجھ کو 

کیسے کرب سے گزری ہوں 

کیسی اذیت ملی مجھ کو 

عیاں نہ کرپاؤں گے لفظوں سے 

مجھے اب چپ ہی رہنے دو 

کہ جس کو دل سے چاہا تھا 

جس کو بس اپنا مانا تھا 

وہی اب درد دیتا ہے 

کہ جس کو میں خود ہی جاناں 

برگ برگ نمو بخشتی رہی 

وہی مجھ کو اب بہت بے رحمی سے 

شاخ شاخ کاٹ رہا ہے 

مجھے اب چپ ہی رہنے دو 

کہ اب باقی نھیں کچھ بھی کہنے کو 

کہ میرے دل میں لفظوں کا سوز ہی ہے بس 

جو اندر سے دیمک کی طرح کھارہا ہے مجھ کو

نہ چھیڑو تم عشق کا قصہ 

کہ اس میں کچھ نھیں رکھا 

سواۓ اذیت کے لمحوں کے 

ہے اس میں آبلہ پائی بس 

کہ اس میں ہجر ہی ہے بس 

وصل یار نھیں ہوتا 

مجھے اب چپ ہی رہنے دو 

لیکن سنو! اک گزارش ہے 

کہ دل ضدی بچے کی طرح 

تمھاری طرف ہی ہمکتا ہے

کہ جب میں رات کو اکثر 

ڈر سی جاتی تھی 

تم ہی تھے نہ جو سنگ میرے ہوتے تھے 

تب تم میں آس کا جگنو دکھتا تھا 

لگتا تھا گلے سے لگا لو گے 

مجھے سب سے چھپا لو گے 

کہ جب بادل کی گرج سے ڈر سی جاتی تھی 

بہت ہی پیار سے جاناں 

مجھے یقیں تم دلاتے تھے 

کہ میں ہوں نہ پاس تمھارے 

مگر تم نے اب کیا ،کیا جاناں 

غم کے سمندر میں اکیلا 

چھوڑ دیا مجھ کو 

وہ اپنے ساتھ کا مان چھین لیا مجھ سے 

اب پرخار راستے ہیں مقدر میرا 

اب ان پہ ننگے پاؤں چلتی ہوں 

پاؤں میں کانٹے چبھتے ہیں جو جاناں

وہ دراصل دل میں چبھتے ہیں 

مجھے بس چپ ہی رہنے دو 

کہ وہ اذیت نہ ہو گی بیاں مجھ سے 

نہ وہ درد عیاں کرپاؤں گی میں 

مجھے بس چپ ہی رہنے دو 

از قلم : بیا محمود

No comments