Zameer ki Adalat written by Ayesha Ali



 "ضمیر کی عدالت"

ضمیر: سنو معاف مانگ لو اپنے کئی کے۔۔۔۔

انسان: مگر میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔

ضمیر: کسی کے اندر کا انسان مارا ہے تم نے۔۔۔۔

انسان: میں نے ایسا کچھ بھی نہیں وہ سب اس کی مرضی تھی وہ نہ کرتے ایسا۔

ضمیر: کسی کو زندہ لاش بنا دیا اور کہہ رہے ہو کچھ بھی نہیں کیا۔

انسان: ہاہاہا زندہ لاش نہیں ہوتے لاش صرف لاش ہی ہوتا ہے۔

ضمیر: ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ معافی مانگ لو اپنی گناہوں کی۔

انسان: کس چیز کی میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں ہے۔

ضمیر: آئینہ کے سامنے کھڑے ہو جاؤ پتہ چل جائے گا، کہ کیا کھویا کیا پایا۔

انسان: ہاں ٹھیک ہے میں دیکھ لوگا میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

ضمیر: اللّٰہ پاک حقوق اللّٰہ معاف کر دیتا ہے مگر حقوق العباد نہیں۔

انسان: پتہ ہے مجھے اسلئے میں سب کچھ اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوں۔

ضمیر: ٹھیک ہے۔

کچھ سال بعد

ضمیر: آج کیوں رو رہے ہو۔

انسان: اپنے گناہوں پہ شرمندہ ہوں۔

ضمیر: مگر میں نے تو تمہیں کہا تھا اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔

انسان: تب مجھے پتہ نہیں تھا میں نادان تھا۔

ضمیر: اب کیوں پشیمان ہو میں نے تو تمہیں ضمیر کے عدالت میں کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی مگر تم نہیں مانے تھے۔

انسان: اب پچھتا رہا ہوں اپنے گناہوں پہ پشیمان ہوں۔

ضمیر: معافی مانگ لو ان سب سے جس کے ساتھ بھی برا کیا ہے تب اللّٰہ بھی تمہیں معاف کر دے گا، کیونکہ جب تک تمہیں وہ انسان معاف نہیں کرے گا تب تک اللّٰہ بھی تمہیں معاف نہیں کریں گا۔

انسان: ٹھیک ہے میں معافی مانگ لوگا سب سے۔

کھبی کھبی ہمیں ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہونا چاہیے خود کو آئینہ میں دیکھ لینا چاہیے کہ کیا کھویا کیا پایا، انسان ہمیشہ وہی کاٹتا ہے جو وہ بوتا ہے۔ بے شک اللّٰہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

عائشہ علی


No comments