Zindgi main Ammal ki Ehmiyat written by Sehrish Zafer

 "سحرش ظفر، اسلام آباد"

عنوان "زندگی میں عمل کی اہمیت"


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جھنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت ہے نہ نوری، نہ ناری ہے۔

 

علم حاصل کرنے کے بعد انسان کی زندگی میں سب سی ضروری چیز عمل ہے۔ شہید حکیم محمّد کہتے ہیں

"زندگی میں اہمیت اسی سے واضح ہوتی ہے کہ عمل کے بغیر زندگی کا تصور ہی ممکن نہیں"

زندگی حرکت اور عمل کا دوسرا نام ہے، اور بے عملی کا دوسرا نام موت ہے۔


 عمل سے  ہی زندگی بنتی بگڑتی ہے۔ زندگی جنّت  بھی عمل سے  بنتی  ہے،اس کو جہنم   بھی عمل ہی بناتا ہے۔



اور میرا ماننا ہے کہ انسان اپنے عمل سے جنّت اور جہنم دونوں میں سے کوئی ایک اپنے لیے خرید سکتا ہے۔ اب یہ  بات انسان کی نیت پے ڈیپینڈ کرتی ہے کہ اس کا کیا ارادہ ہے، نیکی والا یا برائی والا عمل۔ 

بہرحال اگر انسان کی زندگی میں عمل نہ ہو تو انسان کے لیے جینا محال ہو جائے۔

 بے عملی نہ صرف انسان کو سست، کاہل بناتی ہے بلکہ بزدل بھی بناتی ہے۔ اور اسکے الٹ اگر دیکھا جائے تو عمل با عمل انسان کو بااعتماد ،معزز بناتا ہے۔ اسکی وجہ صرف ظاہر ہے کہ ایسا کیوں؟

 کیونکہ ایک عمل والے انسان کو خود پر یقین اور اعتماد ہوتا ہے۔ وہ  کسی کا محتاج نہیں  بنتا۔ کیونکہ اب اسے سعی کے راستے پر چلنا ہوتا ہے، سعی کے ذریعے ہی عمل وجود میں آتا ہے۔

 اس لیے کہ جب انسان ایک کام کو سر انجام دینے کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر وہ اسے عمل میں  لانے کے لیے جدوجہد شروع کردیتا ہے۔ اور ایسے انسان کو خود پر یقین ہوتا ہے اور یہی یقین اسے ترقی کے زینے پر گامزن کرتا ہے۔ 

اسکے برعکس ایک بے عمل انسان مایوسی کی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے، اسے خود پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک بزدل انسان بن جاتا ہے۔ اس کے لیے خود سے کوئی کام خوش اسلوبی سے سر انجام دینا مشکل سی مشکل تر ہو جاتا ہے ۔



جب ایک بار انسان کی اندر مایوسی اور بزدلی آجائے  تو یہ اسکے ارادے کو ناکام اور حوصلے کو پست اور روح کو بدمزہ کردیتی ہے۔ 

دیکھا جائے؛ تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجسم عمل تھے۔ اپنا کام خود اپنے دست مبارک سی فرماتے۔ اس میں آپکو کوئی مشقت نہیں ہوتی تھی، نہ ہی اپنے کام میں کوئی شرمندگی محسوس کرتے۔ 

اپنے پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے تھے۔ بکریوں کا دودھ خود دوہ لیتے تھے۔ جوتے پھٹ جاتے تو خود مرمت کر لیتے۔ غرض دوسروں کو تکلیف دینے کے بجائے  اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنا پسند فرماتے، کسی دوسرے کو زحمت کا موقع نہ دیتے۔

یہ چند واقعات یہ بتانے کے لیے عرض کئے کہ عمل اور محنت کی اہمیت کا اظہار خود آپ نے اپنے عمل سے بھی فرمایا ہے۔



حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی عزم و عمل ،سعی و جدوجہد اور ثابت قدمی کا نمونہ ہے۔ آپکو دین حق  کی تبلیغ میں ہر طرف مصیبتوں اور مشقتوں کا سامنا ہوا۔

 اسکے ساتھ ساتھ دشمنوں کی مخالفتوں نے گھیر لیا۔ 

لیکن آپ نے ہر موڑ پر ہر مصیبت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور  آخر کار آپ کو اسکا بہترین اجر ملا۔مقصد کی لگن اور اسکے لیے مسلسل عمل و محنت انسان کو دیر سویر سہی کامیابی سے ہمکنار کر دیتی ہے اور آخر کار مشکلات سے چھٹکارا مل ہی جاتا ہے۔


 

یہ دنیا دارالعمل ہے، سعی و جدوجہد کی جگہ ہے۔ انسان کو یہ سوچ کر زندگی گزارنی چاہیے کہ یہ مہلت`زندگی ہے، میری ہر سعی و محنت اپنا ایک وجود و اثر چھوڑے گی اور اسکے مطابق مجھے اپنے ہر عمل کا نتیجہ ملے گا۔ میں نے جو بویا ہوگا مجھے وہی ملے گا۔

 قرآن حکیم بھی ہہمیں یہی حکم دیتا ہے "پس جو ذرا برابر بھی نیکی یا بدی کریں گا، اسکا انجام بھی وہ دیکھ  لے گا" (الزلزال ۷۔۸)

 اس آیت  میں صاف ظاہر الفاظ میں اللّه نے فرمایا جو جیسا عمل کریں گا، اسکا بدلہ اسے ضرور ملے گا اس لیے جب تک انسان زندہ ہے، اسے مہلت  ملی ہے  تو اسے چاہیے کہ جو بھی عمل کرے وہ سوچ سمجھ کے کریں

No comments