آج اگر ضبط ٹوٹا ہے تو کوئی بات تو ہوگی|طیبہ شاہ۔


 سہتی رہی اندر کے زخموں کو بھی ہنس کے وہ 

آج اگر ضبط ٹوٹا ہے تو کوئی بات تو ہوگی 

 رہی ہے جو تم سے دور بن  وجہ کہ 

اس کے ہجر کی کوئی وجہ ہو گی 

ناراضگی بات کی ہوتی ہے بنا بات کا کچھ نہیں ہوتا 

اگر آج بات نہیں ہوتی تو کوئی بات تو ہو گی 

محبت روٹھ جائے تو کیا مجال اس کی کہ وہ روٹھے

اگر آج یہ خود پہ آن پڑی ہے تو کوئی بات تو ہوگی 

یہ معلوم ہے تم کو کہ یہ نم آنکھیں تیرے انتظار میں ہیں

اگر ان سے ٹپکے ہیں انسو تو کوئی بات تو ہوگی 

دنیا نے ٹھہرا دیا برا بغیر جانے مدعا 

اگر ہوں بری تو کوئی بات تو ہوگی۔

طیبہ شاہ۔

1 comment: