Olad ki terbiyat urdu column written by Sehrish Zafer

 تربیت اولاد

قرآن میں حضرت لقمان  علیہ  کی نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں بچوں سے کس طرح ان کی نفسیات اور ذہنی کیفیت کو سامنے رکھ کر گفتگو کا آغاز کرنا چاہئے۔

    دین اسلام میں جس طرح والدین کے حقوق کو جا بجا بیان فرمایا گیا ہے  ’’ اور والدین کے ساتھ احسان کرو ‘‘فر ماکر اولاد کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی  ہے ،اسی طرح دین اسلام نے والدین کو اولاد کی اچھی تربیت  کا بھی حکم دیا ہے ۔دور حاضر میں  عام طور پر والدین کے حقوق کے حوالہ سے تو  بات کی جاتی ہے لیکن اولاد کے  حقوق کی بات عمومی طور  پر نہیں کی جاتی اور اگر بالفرض  اولاد کا ذکر آبھی جائے تو  اس تہذیب یافتہ دور میں پھر  بچیوں کے حقوق وتربیت کے طور پر ہی بات کی جاتی ہے ۔یہ بھی  صحیح ہے کہ آج کے اس تعلیمی  دور میں بھی بعض ایسے شقی القلب لوگ بھی  موجود ہیں جو بچیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے  ہیں اس لئے اس موضوع پر بھی ہر ایک کا لکھنا ،بولنا لازمی  ہے بات کا مقصد یہ ہے کہ اولاد میں صرف لڑکی ہی نہیں لڑکے بھی ہوتے ہیں اور ماں باپ کو اولاد سے برابری والا سلوک کرنا چاہیۓ اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں لاپرواہی  نہیں برتنی چاہیے۔ کیونکہ اکثر یہ بات دیکھنےو سننے کو ملتی ہے کہ ماں باپ بچوں میں بھی فرق کرتے ہیں ۔ ٹھیک ہے درجہ میں فرق کرنا چاہیۓ مگر اس ضمن میں ہم قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔

 لیکن جہاں تک پیار کی بات ہے اس میں والدین کو اولاد سے یکساں محبت کرنی چاہیۓ کیونکہ والدین کا سلوک اگر اس کے برعکس ہوگا  یعنی ماں کو بیٹا عزیز ہوگا بیٹی سے یا باپ کو بیٹی عزیز ہوگی بیٹے سے اور دونوں میں سے ایک کو زیادہ پیار ملے گا دوسرے کو کم تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کا اگلا بچہ احساس کمتری کا شکار ہوتا نظر آۓ گا ۔اگر ایک بچہ فرمانبردار ہے دوسرا نافرمان تو پیار سے سمجھاٸیں ۔

   سورۂ لقمان میں حضرت لقمان   نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے وقت یہ انداز اپنایا اے میرے بیٹے

    ’’اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ، کیونکہ بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ‘‘۔

    آگے حضرت لقمان نے فرمایا کہ :

    ’’ اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل اگرچہ  رائی کے دانے کے برابر  بھی ہو (تو بھی اسے حقیر  نہ جاننا، پھروہ عمل چاہے کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر کر کے رہے گا،بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔

 پھر فرمایا : اے میرے بیٹے! نماز قائم کرنا،اور نیکی کے کاموں کی دوسروں کو تلقین کرنا ،اور برے کاموں سے روکتے رہنا اور اس کام کے دوران جو کچھ بھی  پیش آئے اس پر صبر کا دامن تھام لینا بے شک یہ(صبر) بہادری وہمت  والے کاموں میں سے ہیں  ،اور لوگوں سے بے رخی مت اپنانا،اور زمین پر تکبرکے ساتھ اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے ،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرنا،اور اپنی آواز کو پست رکھنا ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے ۔‘‘ (سورۃ لقمان ،آیت نمبر12 اور 16 تا 19 )۔

    اس آیت کریمہ میں حق تعالیٰ نے حضرت حکیم لقمان کی دانائی وحکمت والی نصیحتوں کوجو انہوں نے اپنے بیٹے کو کیں بیان فرما کر  کچھ باتوں کی طرف رہنماٸی  و توجہ دلاٸی۔

سب سے پہلی نصیحت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوٸی کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا ،بلکہ اے میرے بیٹے کہہ کر پکارا ہے ۔یہ انداز اس لیے اپنایا کیونکہ نام لینے کے بجاۓ پیار سے اے میرے بیٹے کہنا بچے کے دل میں آپ کی محبت کے جوش کو جگاتا ہے۔  اور اس طرح بچے کے دل پر آپ کی نصیحت جلد اثر کرتی نظر آتی ہے چونکہ ہمارا نصیحت کرتے وقت ارادا بھی یہی ہوتا ہے کہ بچہ بات مان جاۓ ۔تو اس لیے ایسا انداز اختیار کرنے میں میں پھر کیا حرج ؟اور اس طرح کا انداز اختیار کرنے میں   والدین کے من کی مراد بھی پوری ہوگی۔ جس طرح ماں لاشعوری والی  عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرالعل ،میراچاند ،میرامٹھو،میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القابات سے نوازتی ہے  تو والدین کو چاہیۓ کہ اسی طرح جب بچہ شعوری کی  عمر کو پہنچ جائے تو بھی اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں کیونکہ ایسا کرنے سے  ماں باپ کی بات بچے کے دل ودماغ پر جلد  اثر انداز ہوگی ۔

    اس کے بعد پہلی نصیحت جو  حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ،وہ توحیدِ باری تعالیٰ سے متعلق تھی ،کہ’’ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا‘‘ ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کو دینی علوم و سنت نبویہ و دینی عقاٸد  سے سب سے پہلے روشناس کروانا  چاہیے،اس لئے سب سے پہلے بچے کو دینی تعلیم دی جائے۔ قرآن وسنت کی تعلیم ماہر ین قرآن وسنت سے دلوائی جائے۔ہمارے معاشرے کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جسمانی تکلیف مثلاً پیٹ میں درد ہو یا معدے کا مسٸلہ ہو معدت والے ڈاکٹر کو چیک اپ کرانے لے جاتے ہیں۔اور دل کا مسٸلہ ہو  تو  اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں لیکن جب علم قرآن کریم واحادیث نبویہ ؐ  کا معاملہ پیش آتا ہے تو اس میں والدین غفلت برتے ہیں۔میرا اپنا تجربہ ہے مدارس کا نظام چلاتے ہوۓ میرا چھٹا سال ہے میں نے پرکھا ہے کچھ والدین کے بچوں کو دیکھ کر ان کے چہرے پڑھ کر کہ کچھ والدین اس معاملے میں بہت لاپرواہی سے کام لیتے ہیں ۔جب بچوں کو سبق نہ آنے پر والدین کو بلایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بس کیا کرے جی آپ استاد ہیں ذرا سختی کرے اور توجہ دیں  اسے اپنے پاس بٹھاۓ ۔مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب وہ اپنے ہی بچوں کے سامنے ایسی میٹھی باتیں کرتے ہیں تو پھر سوچیں بچے وبچیاں اس کا کتنا اثر لیں گے۔کیونکہ بچہ اپنے بڑوں کے تابع چلتا ہےاور ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے بچپن سے ہی جب بچے کے کانوں میں اذان دی جاتی ہے تو یہ اس بات کا  منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے کہ اب احتیاط کا پہلا پاٹ شروع ہوا چاہتا ہے کیونکہ اب بچے کی تربیت کا پہلا قدم طے ہوپاتا ہے ۔

ہم بچوں کو جس ماحول میں ڈالے گے جس طرح کا اپنا رویہ لہجہ اپناۓ گے بچہ بھی اسی کو دیکھا دیکھی، سنا ،سنی ویسا رنگ  چڑھاۓ گا کیونکہ بڑوں کے بنے بناۓ ماحول کا بچے پر جلد اثر انداز ہوتا ہے ۔اب اگر  آپ کا گھرانہ دیندار ہوگا تو بچے بھی فرمانبردار ہوگے شروع سے جیسے تربیت کی ہوگی بچے کی ویسے ہی اپنے بچے کو پاۓ گے لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اب کے اکثر والدین بچوں کی فراٸشوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں دنیاوی تعلیم دلوانے کے لیے اور اگر بچہ کمزور ہے پڑھاٸی میں یا سست و لاپرواہ ہے تو اچھے سکول میں تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ ٹیویشن بھی لگوا دیتے ہیں کہ میرا بچہ پڑھ لکھ کر انجینٸیر یا ڈاکٹر وغیرہ بن جاۓ اور ان خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے وہ خود کو دن رات محنت ومزدوری میں لگا دیتے ہیں تاکہ ان سب خرچوں کو سر انجام دیاجاۓ ۔اس طرح ماں باپ کی ذمہ داری  بچوں کی تربیت کی  کہیں پیچھے رہ جاتی ہےان کا مقصد ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہوگیا اب استاد اسے شعور کی منزلیں طے کرواۓ گا ۔ ۔اور بات جہاں دینی تعلیم کی آجاۓ وہاں رد عمل برعکس ہوتا ہے نہ نماز کی فکر نہ ہی قرآن پر توجہ۔نہ سنتوں پر عمل  کرانے کی طرف توجہ دی جاتی ہے ۔یہ میرا اپنا تجربہ ہے میں نے جب جب کلاس میں بچوں سے پوچھا کہ نماز پڑھتے ہو تو کچھ  بچوں کے سر جھک جاتے ہیں ۔جب بڑی جن پر پردہ فرض ہوتا پوچھا تو ان کی زبان پر بھی تالا لگ جاتا ہے ایسا کیوں ہے؟کیونکہ ماں باپ کوتاہی کرجاتے ہیں انہوں نے شروع سے پابند نہیں کیا ہوتا اور بڑے ہوکر جب نہیں مانتے بات تو وہی ماں باپ پریشان ہوجاتے کہ بچہ بدتمیز ہے مانتا نہیں کیونکہ ابتداً جو تربیت میں کمی وکوتاہی کی جا چکی ہوتی ہے۔میری درخواست ہے ان والدین سے کہ خدارا اس معاملے میں غفلت و لاپرواہی سے کام نہ لیں ان کی آخرت کی فکر کریں اپنے بچوں کو وقت دیں ۔

    آگے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا کہ’’ میرے بیٹے! عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہو تو روزِ محشر اللہ تعالیٰ اسے تمہارے سامنے لے آئیں گے ۔‘‘

    یعنی کوئی عمل وہ اچھا ہویا برا ،اسے معمولی مت سمجھنا کہ روزِ محشر تمہیں اس کا سامنا کرنے پڑے گا ۔اگر  نیک عمل ہوگا تو وہ تمہارے لئے روزِ محشر مفید ثابت ہو گا اور ہوسکتا ہے کہ جسے تم معمولی سمجھو روزِ محشر وہی عمل  تمہاری شفاعت  و جنت میں جانے اور جہنم سے بچنے کا سبب بن جائے اور اگر وہ عمل بد  (برے)ہوگے ،تو تم بروزِ محشر اسے  اللہ سے چھپا نہ سکو گے ،وہ بھی تمہارے سامنے کھل کے آجائے گا ۔ کیونکہ اللہ ظاہری و باطنی سب باتوں کو جانتا ہے ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اُس عمل کو جسے تم معمولی سمجھ رہے ہوگے تمہارے سامنے ظاہر کردیں  اور وہاں انکار کی گنجائش بھی باقی نہ رہے اور تم پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہ کر پاٶگے۔اس لیے عمل بد سے خود کو بچانے کی کوشش کرنا۔

      حضرت لقمان مزید فرماتے ہیں کہ’’ اے میرے بیٹے ،نمازقائم کرنا،اور اچھے کاموں کی تلقین کرت رہنا اور برے کاموں سے روکتے رہنا۔‘‘

    حضرت لقمان کے فرمان میں3 امر ہیں:

    (1)نماز قائم کرو۔

    نماز ہر شریعت میں رہی ہے۔ اس کی کیفیت ؍و ہیت میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ، کیونکہ نماز کے ذریعے  مشکل وقت میں اللہ سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ :

    ’’اللہ سے مدد مانگو ،نماز اور صبر کے ذریعہ سے۔ 

    اسی طرح نماز جسم وروح کے لئے باعث سکون وراحت ہے اور ایک مسلمان کو دنیاوی کوئی فائدہ بھی نہ ہو، وہ نماز صرف اللہ کا حکم سمجھ کر  بھی  پڑھے گا  تو اس سے مالک بھی  راضی ہوگا اور جب مالک راضی ہوتا ہے تو غلام پر انعامات کی بارش کرتا ہے۔

     (2)اچھے کاموں کا حکم کرو۔

    ایک شخص دوسرے کو جب اچھائی کا حکم دے گا تو لازمی  امر ہے کہ اول وہ خود بھی تو اچھے کام کرتا ہوگا ۔اگر اس کا عمل اچھائی کے برعکس ہوگا تو اس کی بات نہیں سنی جائیگی اور اگر  بالفرض سن بھی لی جائے تو اس کا اثر نہیں ہوگا ۔اس کی نصیحتوں میں تاثیر والا وزن نہیں رہے گا۔

     ( 3)برائی سے منع کرنا۔

    برائی سے منع کرنا بھی اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب بندہ خود برائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہو۔ اگر کوئی شخص خود برے کام کرے اور دوسروں کو کہے یہ نہ کرو تو اس کا کتنا اثر ہوگا یہ ہر عام وخاص جانتا ہے ، اس لئے ایک داعی الی اللہ کو 2کام لازماً کرنے پڑیں گے کہ وہ خود بھی اچھے کام کرے اور برے کاموں سے باز رہے ،دوسروں کو بھی  اس طرح  وہ تبلیغ کرسکے گا۔ جب ایک شخص اچھے کام کرتا ہے اور اچھائی کا حکم بھی دیتا ہے اور برے کاموں سے باز رہتا ہے اور برائی سے منع بھی کرتا ہے تو یقینی بات ہے  تو اس کی بات کا وزن رہے گا اس کے کلام میں اللہ کی طرف سے تاثیر پیدا ہوجاۓ گی  ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اس کے دشمن بن جائیں ۔ ،وہ اسے جانی نقصان نہ بھی پہنچائیں ذہنی اذیت سے دوچار کریں جس پر اسے صبر کرنا ہوگا اور یہ لمحات بڑے ہمت کے ہوتے ہیں کہ بے وجہ تنقید برداشت کی جائے ،بے وجہ کے طعنے سنے جائیں ، اس پر طنز واستہزاء کے تیر برسائیں جائیں اور ان سب کے جواب میں وہ خاموش رہیں اس کو سہنے کے لئے بڑی ہمت وبڑا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے  اور یہی بات حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی کہ صبر کرنااور صبر کرنا بڑی ہمت کا کام ہے ۔

    اور جن لوگوں سے مزاج نہیں ملتے ،ان سے بھی بے رخی سے بات مت کرو،دوستانہ نہ ہونا ایک الگ معاملہ ہے لیکن یہ نہ ہو کہ جن کے ساتھ مزاج نہیں ملتے ان سے فاصلہ رکھ کر بے رخی برتی جاۓ کیونکہ ہمارا دین تو غیر مسلم کے ساتھ بھی اچھے برتاٶ کی تلقین کرتا ہے کہ ہوسکتا وہ ہمارے اچھے برتاٶ سے مسلمان بن جاۓ کیا تم نے میرے نبی ﷺ کی زندگی کو نہیں پڑھا جوتے خون سے لہو لہان ہوے تھے مگر زبان سے بدعا نہ نکلتی تھی آج ہماری نسلوں کے دلوں میں اس عمل کو بیدار کرانا بہت  ضروری ہے ۔

 ان کے ساتھ بے اعتنائی کا معاملہ نہ کرنا جن سے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو۔حضرت لقمان نے اپنے لخت ِ جگر کو اس سے منع فرمایا اور مزید فرمایا کہ متکبر مت بنے ،یعنی بے رخی کا معاملہ تکبر کے زینے کی پہلی سیڑھی ہے ،اس سے بچنا اور ساتھ ہی فرمادیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی متکبرین کو پسند نہیں فرماتے اس لئے تکبر سے بچنا  کیونکہ تکبر اللہ کی چادر ہے۔جو اسے چھیڑتا ہے اپناتا ہے وہ برباد ہوجاتا ہے ۔

اس کے ساتھ ہی حضرت لقمان نے فرمایا کہ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو،یعنی زمین پر اکڑ کر چلنا بھی تکبر کے قبیل سے ہے ،زمین پر اکڑ کرمت چلو ، اعتدال ہر شے میں لائق تعریف ومدح ہوتا ہے اور قرآن میں بھی امة وسطا بولا کہ امت محمدیہ کو درمیانی امت بنا کر افضل و اشرف درجے سے نوازا کیونکہ فضیلت کی بنیاد اسی پر ہے اور دور حاضر پر نظر دوڑاٸی جاۓ تو ہم میں سے کتنوں نے بدعات جاری کی ہوٸی ہیں دین میں غلو بھی میانہ روی جیسی روش سے ہٹ کر چلنا ہے اور اللہ نے جابجا کلام اللہ میں فرمایا کہ وہ حد سے بڑھنے والوں اور زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔اس طرح   افراط وتفریط لائق مذمت ،اس لئے ان دونوں امور سے بچ بچا کر  حیات بسر کرنا

    آخری بات حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو یہ سکھائی کہ اے میرے بیٹے !اپنی آواز کو پست رکھو۔یہاں بھی وہی درج بالا امر ہے یعنی عدل ، اعتدال ۔یعنی آواز نہ اتنی پست ہو کہ دوسرا سن ہی نہ سکے اور نہ ہی اتنی زور زور سے بولو کہ دوسروں کی آواز تم نہ سن سکو اور بدتمیزی الگ سمجھی جاۓ ۔یاد رکھو کہ گدھا زور زور سے بولتا ہے کیونکہ صوت الحمار اللہ تعالیٰ کو ساری آوازوں میں سے زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔

    قارئین کرام! حضرت لقمان کی اپنے فرزند ِکو یہ نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد (بچوں) سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ،ان کی ذہنی اپروچ کا انداز لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ڈسکس کریں تو اس کے تنائج زیادہ بہتر رہیں گے ۔ڈانٹ ڈپٹنے کے دور گزر چکے ہیں ۔

    حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم کے ساتھ10 برس رہے ۔آپ ؓ خود فرماتے ہیں کہ ان10 برسوں میں کبھی نبی کریم نے مجھے نہیں ڈانٹا ۔ایک واقعہ حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم نے مجھے کسی کام سے بھیجا ۔میں بچوں کے ساتھ کھیل کھود میں لگ گیا ،اس کے باوجود بھی نبی رئوف رحیم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔اسی طرح صحاح ستہ میں شامل حدیث شریف کی کتاب ’’سنن ابن ماجہ ‘‘میں فرمان نبویؐ موجود ہے کہ :

    ’’اکرمو اولاد کم واحسنو اوبھم ‘‘

    "اپنی اولاد کے ساتھ نرمی برتو،اور ان کی بہتر تربیت کر و۔"

    اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم نے بھی اپنی امت کو اولاد کی بہتر تربیت کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اولاد کی تربیت اگر طرزِ نبویؐ پر کی گئی تو ان شاء اللہ اولاد کی دنیا وآخرت بھی سنورے گی اور والدین کی بھی لیکن ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم معروضی حالات سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں اور سابقہ دور کے خود تو نہیں بنتے لیکن اپنے بچوں اوراپنی بیوی کے ساتھ وہی برصغیر کی جاہلانہ رسوم ورواج کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام جاہلانہ رسم ورواج کو مٹانے آیا ہے اور اس نے والدین کے حقوق کے ساتھ اولاد کے حقوق بھی بتلائے ہیں ۔

    اس وقت سورۂ لقمان کی آیات کے تناظر میں گفتگو کرنا مقصود تھی ۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل ِ صالح کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔ کیا خوب کہا کسی نے

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل ؑکو آدابِ فرزندی

از قلم سحرش ظفر [اسلام آباد]

No comments