14 August 1947_14 August 2021 urdu Column written by Binish Batool

  چودہ اگست 1947ء.. 14 اگست 2021


 از قلم : بینش بتول 

چودہ اگست 1947وہ وقت جب ایک عظیم ملک کا پاکستان کا پرچم لہرایا گیا۔ایسا وقت جس کے عوض برصغیر کےمسلمانوں نےاپنالہوں اور جسم کےٹکڑے پیش کئے۔یہ بات قابل تسلیم ہےہرپرچم کو پہلی بار لہرانے سے پہلے اس پرچم کےمکینوں کوایک بڑی قمیت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور ہمارے پرچم کی بڑی قمیت مسلم کی جان ، ہماری

بہنوں کی عزتیں اور نامالود پچوں کی لاشیں تھی۔ یہ سب دےکر ہم نےاس پرچم کو فضاء میں لہرایا تھا۔ اور جو اس پرچم کو لہراتا ہوا دیکھنے پہنچے تھے۔ ان میں ان ماصوم بچوں کے جسم تھے جن کے جسموں پہ تالاب کا پانی سجنے کی بجائے ان کےوالدین کا لہوں سجا تھا۔ وہ مائیں تھی جو کبھی اپنے پچوں کا ہاتھ تھام کر گھرلاتی تھی آج اپنے بچوں کے جسم کے ٹکڑے تھامے تھی۔ وہ باپ تھا جو کبھی پسینے سے شرابور ہوا کرتا تھا آج اپنے بیٹے کے لہوں سے شرابور تھا۔ وہ بھائی تھا جو کبھی ایک نئی چادر لاکر بہن کےسر پہ دیتاتھا آج لہوں میں بھگی چادر لئے آیا تھا اور وہ بہن تھی جو کبھی تنہا نہیں نکلتی تھی آج تنہا اس پرچم کو دیکھنے آئی تھی۔ ماں باپ نے اپنی اولاد، سلاد نےوالدین ، بھائی نے بہین اور بہین نے بھائی کے کئی ٹکڑے دےکراس پرچم کو دیکھاتھا۔ اس طرح سے ہم نے اپنی آزادی کا پہلا دن منایا تھا۔ 

یہ تو حال تھا 14 اگست 1947 کا اب حال دیکھئے 14 اگست 2021 کا یعنی 73 سال بعد بھی وہ ماں وہ باپ وہ پچے وہ بھائی وہ بہنیں اس مٹی میں ان کے لہوں کی خشبوں محسوس کرتی ہے۔ اور اس پرچم کو لہراتا پاکر آنکھوں میں نمی لئےمسکراتی ہے۔ انہیں یہ پرچم سلامت اور فضاء میں لہراتا بہت پسند ہے۔ وہ اس پرچم کی لہلہاہٹ میں اپنوں کی مسکراہٹ تلاشتیں ہے۔ اور ہم جنہوں نے کچھ کھویا ہی نہیں ہےتو تلاشیں گےکیا اس سلامتی یامسکراہٹ میں ہم اگر اسے پیروں میں روند بھی تو کیا،اگر ہم اسے کاٹ بھی تو کیا اور اگر ہم اسے کالی گھٹاؤں میں پھٹنے کے لئے چھوڑ بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے کونسا کسی اپنے کا لہوں شامل ہے اس کے رنگوں میں اور اگر یہ ہمارا ہے تو اپنے پرچم کو اس انداز میں تو رسوا نہیں کیاجاتا نا۔ اس کانام رکھا جاتااور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو شاید ہم ہر سال 14 اگست کو خود سے ہی بھڑجاتے ہیں اور شکشت بھی خود پاتے ہیں اور قتح یاب بھی خود کہلاتے ہیں۔ تبھی ہم جشن میں اسے بناتے ہیں شکشت کی رسوائی میں اسے اپنے ہی ہاتھوں سے کاٹ کھاتیں ہیں۔ کیونکہ جب بھی کوئی ملک یا قوم شکشت پاتی ہےتو سب سے پہلے اس کےپرچم کی توہین کی جاتی ہے۔ اس کےپرچم کو کاٹا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے۔ پیروں میں روند دیاجاتا ہےاور پھڑا جاتا ہے۔ اور ہم تو خود ہی ۔۔۔۔ پرچم ایک ملک کی پہچان ہوتا ہے ہم اسے جس مقام پہ رکھے گے دنیا اسی مقام تک اپنی نگاہ دوڑا کر ہمیں دیکھے گی۔ اگر ہمارے پرچم کا بسرا فضاؤں میں ہوگا تو ہم زمین پہ جگہ بنانے کے قابل ہوسکے گے۔ اور پرچم زمین پہ ہوگا یا کسی چھڑی کی دار کے نیچے کٹنے کے لیئے ہوگا تو ایک دن ہم زمین سے اپنی جگہ گواہ دے گے کیونکہ ان دونوں کا گزارا ایک ساتھ ممکن نہیں جب فضاؤں میں مصیبت ہوتو ہم فضاؤں میں اپنے پرچم کے شانہ بشانہ ہو اور جب زمیں پہ کوئی مصیبت آن پڑے تو ہم اس جڑوں کی حفاظت کریں اور اسے فضاء میں لہرانے دیں۔ اور اگر واقع ہم اسے ہمشہ سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو آؤ مل کر ایک وعہدباندھے کہ ہم اس کی قدر کریں گے جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس پرچم کو فضاء میں لہرائے تاکہ ہم اپنا مقام آسماں کی خوبصورت فضاؤں میں دیکھ سکے ۔

11 comments: