Percham ka muhafiz urdu afsana written by Samreen Maskeen

ثمرین مسکین /اٹک

عنوان :پرچم کا تحفظ


علی کے امی ابو ہسپتال کے کوریڈور میں اللہ سے علی کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔جیسے ہی ڈاکٹر نے انھیں بتایاکہ  علی کی حالت اب بہتر ہے اور اسے کمرے میں شفٹ کر دیاگیا ہے۔

دونوں احمد صاحب اور مسز احمد کمرے میں داخل ہوئے علی کے ہونٹوں نے ہلکی سی جنبش کی جو نہ مسز احمد کو سنائی دی نہ احمد صاحب کو۔

بس انکے دل صرف اللہ کے آگے سجدہ ریز تھے کہ علی کو آخرکار تین دن بعد ہوش آگیا تھا۔

  ***

علی روحینہ اور احمد صاحب کا اکلوتا بیٹاہے۔علی بچپن ہی میں دوسرے بچوں کی نسبت ذہین اور بات کو جلدی سمجھنے والا بچہ ہے۔احمد صاحب آفس میں کام کرتے ہیں اور روہینہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔

  ***

14اگست کی شام علی اپنے امی ابو کے ساتھ قائداعظم کے مزار پر گیا۔

مزار کے باہر لگے جھنڈے اور جھنڈیوں کو دیکھ کر احمد صاحب کو پاکستان کی تاریخ یاد آگئی ۔انھوں نے پاکستان بننے سے لے کر اب تک کے تمام حالات و واقعات علی کے گوش گزارکیے۔

احمد صاحب نے علی کو بتایا کہ

لاالہ الااللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والا ہمارا ملک ہمیں تحفے میں نہیں ملا بلکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے سینچا گیا۔

نہ جانے کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں ،کتنے بچے یتیم ہوئے اور کتنے کی گھر لٹے،لاکھوں لوگ شہید ہوئے اور اس ملک کی بنیاد رکھی گئی ۔

علی خاموشی سے اپنے ابو کی باتیں سنتا رہا۔۔

علی کے ابو نے لمبا سانس لیا اور خاموش ہوگئے ۔۔

جیسے ان لوگوں کے درد کو محسوس کررہے ہوں۔

علی نے پوچھا ابو خاموش کیوں ہوگئے ؟

اور کیا ہوا تھا بتائیں نا؟؟

احمد صاحب پر درد کی کیفیت طاری تھی۔ایسا لگ رہا تھاجیسے یہ آج ہی کی بات ہو ان سے کچھ بولا نہ جارہا تھا۔

وہ ایک نرم دل طبیعت کے مالک تھے۔

احمد صاحب کی نظر ایک بار پھر لہراتی سبز و سفید جھنڈیوں پر پڑی اور انکے ذہن میں ایک خیال آیا اور سوچا کہ کیوں نہ اس عظیم کام کی ذمہ داری علی کو بھی سونپی جائے ۔

احمد صاحب خاموشی کو توڑتے ہوئے علی سے مخاطب ہوئے ۔۔

علی بیٹا میں آپکو بھی آج ایک ذمہ داری والا کام بتاتا ہوں۔

علی فوراً بولا جی ابو بتائیں کیا کام ہے؟

علی تو پہلے سے ہے اپنے ابو کے بولنے کے انتظار میں تھا ابو کو بولتے دیکھ کر بھت خوش ہوا۔۔

علی کی ابو نے کہا :آپ وعدہ کریں میری بات مانیں گے؟

نہ صرف خود بلکہ اپنے دوستوں کو بھی بتائیں گے اور عمل بھی کریں گے؟

علی نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا جی ابو آپ بولیں ۔۔

احمد صاحب نے کہا بیٹا جو سب سے پہلا کام آپ اپنے ملک کےلیے کر سکتے ہو وہ ہے پرچم کا تحفظ۔۔

کیا آپ کرو گے تحفظ پرچم کا؟

علی نے نہ سمجھتے ہوئے کہا وہ کیسے ابو؟

آپ وضاحت کریں ابو میں ضرور کروں گا۔

احمد صاحب نے بتایا کہ  بیٹا آپ دیکھ رہے ہیں ناکہ یہ سبز ہلالی پرچم اور یہ جھنڈیاں لہراتے ہوئے بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔

علی نے اردگرد دیکھا اور تائید کرتے ہوئے کہا جی ابو بھت خوبصورت لگ رہی ہیں۔

احمد صاحب نے کہا بیٹا یہ ہی پرچم اور جھنڈیاں لگا کر اپنے گھروں ،سکولوں ،کالجوں اور گلی محلوں کو سجاتے ہیں اور بہت فخر کرتے ہیں اپنے پاکستانی ہونے پر لیکن ۔۔۔

انھوں نے لیکن کہہ کر سانس لیااور ایک بار پھر خاموش ہوگئے ۔۔

علی نے کہا لیکن کیا ابو؟

احمد صاحب گویا ہوئے لیکن افسوس بیٹا کہ بعد میں یہی سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیاں ہوا سے پھڑ پھڑا کر پھٹ جاتی ہیں ،لوگ لگانے کے بعد اتارنا بھول جاتے ہیں۔اور یہ پیارا پرچم لوگوں کے پیروں کے نیچے روندا جاتا ہے۔کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ پرچم ہماری عزت و حرمت کا نشان ہے۔

علی بولا ابو مجھے کیا کرنا چاہیے مجھے بتائیں ؟

احمد صاحب بولے یہی بات بتانے لگا ہوں بیٹا اور وہی کام بتاؤنگا جو آپ کرسکتے ہو۔

علی بولا جی ابو!

احمد صاحب نے کہا علی بیٹا آپ وعدہ کرو کہ آپکو جہاں بھی زمین پہ پڑا پرچم یا چھوٹا سا حصہ بھی نظر آیا توآپ ضرور اٹھاؤ گے ،اور لوگوں کی طرح وہیں چھوڑ کے آگے نہیں بڑھو گے؟

علی نے پرجوش ہوتے ہوئے کہا کہ :ابو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے پرچم کے تحفظ کا خیال رکھوں گا اور یہ کہ کل سکول جا کر اپنے دوستوں کو بھی بتاؤں گا ۔ہم سب مل کر یہ اچھا کام کریں گے۔

احمد صاحب کی آنکھیں چمک اٹھیں انکی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جلنے لگ گئے ۔انکو خوشی ہوئ کہ تھوڑا سا ہی سہی وہ بھی اپنے حصےکا دیا جلا رہے ہہیں۔

انھوں نے خوش ہوتے ہوئے علی کے ماتھے پہ بوسہ لیا۔انکو یقین تھا کہ انکا ذہین بیٹا یہ کام بآسانی کر لےگا ۔

روحینہ بیگم (مسز احمد ) جو کافی دیر سے باپ اور بیٹے کی گفتگو کو خاموشی سے  سن رہیں تھیں گویا ہوئیں ۔۔

چلیں جی اب گھر چلتے ہیں بھت باتیں ہوگئیں اور کافی وقت بھی ہوگیا ادھر آئے ہوئے کیونکہ صبح علی نے سکول بھی جانا ہے۔

اوہ ہو بیگم میں تو بھول ہی گیا احمد صاحب نے کہا۔

چلیں علی بیٹا گھر چلیں صبح آپ نے سکول بھی جانا ہے اور اپنے حصے کا دیا بھی جلانا ہے روہینہ نے کہا

وہ بھت خوش تھیں کہ انکو اللہ نے احمد ایک عظیم شوہر اور ذہین وفطین بیٹا عطا فرمائے وہ اللہ کی شکر گزار تھیں۔

احمد صاحب نے علی کا ہاتھ تھاما اور تینوں گھر کی طرف روانہ ہوگئے ۔

جب وہ لوگ گھر پہنچے تو روحینہ نے علی کو دودھ کا گلاس دیا اور سونے کی تلقین کرتے ہوئے خود بھی سونے چلی گئیں ۔علی بھی تھکا ہوا ہونے کی وجہ سے جلد ہی نیند کی گہری وادیوں میں چلا گیا۔


اسلام علیکم علی!

قائد نے علی سے مصافحہ کرنے کےلیے ہاتھ آگے بڑھایا ۔

علی نے حیرت سے قائد کو دیکھا اور جواب میں وعلیکم اسلام قائد کہتے ہوئے مصافحہ کرنےکے لیے ہاتھ بڑھایا 

قائد نے علی کو مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا کہ علی بچے میں آپ سے بہت خوش ہوں

آپ نے اپنے ابو سے پرچم کی حفاظت کا جو عہد لیا ہے اسے پورا کرو گے۔

علی نے جواباً قائد کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا میں آپکے پاکستان کی ہر ممکن حد تک حفاظت کرنے کی کوشش کروں گا اگر مجھے جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو کروں گا

ان لوگوں کی طرح جنھوں نے پاکستان بنتے وقت جانیں قربان کی تھیں۔

قائد نے خوش ہو کر کہا:بچے مجھے آپکے اس عزم پر فخر ہے

آپ جیسے بہادر اور باہمت نوجوان ہی ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔

قائد نے علی کو خدا حافظ کہااور چلےگئے 

علی بھت خوش تھا کہ قائد اسے ملنے آئے ۔

وہ بھاگ کر اپنے امی ابو کو بتانے کےلیے جارہا تھا کہ اسکی امی نے آکے زور سے اسکو ہلایا 

علی بیٹا اٹھ جاؤ سکول کےلیے لیٹ ہو جاؤ گے۔

علی نے جھٹ آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر بولا اچھا تو وہ خواب تھا قائد خواب میں آئے تھے۔

سکول کی تیاری کرنے لگا۔

علی سکول کی تیاری کرتے ہوئے بھی سوچ رہا تھا کہ قائد کو بھی ہم سے امیدیں وابستہ ہیں

میں ضرور اپنے ملک کےلیے کچھ کروں گا۔

وہ یہی باتیں سوچتے ہوئے سکول کا بیگ لے کر بس سٹاپ پر بس کا انتظار کرنےلگا۔

علی بس کے انتظار میں کھڑا تھا کیا دیکھتا ہے کہ ایک تیز رفتار کار سڑک کے بیچ میں سے گزری اور اس پر لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم زمین بوس ہوگیا۔

اور کار اسی تیز رفتاری سے گزر گئی ۔

کار میں بیٹھے شخص کو تو شاید خبر ہی نہ ہو یا جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہو۔


علی کو اچانک اپنے ابو اور قائد کی باتیں اور ان سے کیا وعدہ یاد آیا۔

اسنے بیگ ساتھ رکھے بینچ پر رکھا اور سڑک پر دائیں بائیں دیکھے بغیر دوڑ لگائی پرچم اٹھایا سینے سے لگایا اور قائد کی باتوں کو دہرانے لگا۔

اس بات سے بےخبر کہ وہ سڑک پر کھڑا ہے ۔

اچانک ایک تیز رفتار گاڑی آئ اوراسے ٹکر مار دی

اور وہ خون سے لت پت سڑک کے بیچ گرا۔۔

ادھر علی کی ابو آفس کےلیے نکلے علی کا بیگ دیکھا علی کو نہ پاکر پریشان ہوئے ادھر ادھر دیکھنے پر سڑک پر شدید زخمی پڑے علی کو دیکھا اور اسکی طرف بھاگے اسکو لے کر قریبی ہسپتال پہنچے ۔

بالآخر تین دن کے بعد علی کو ہوش آیا تو احمد صاحب اور روحینہ بیگم کی سانس بحال ہوئ۔

جیسے ہی علی کے  زخم ٹھیک ہوئے تو اسے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔

گھر آنے کے کچھ دن بعد جب علی کی حالت بہتر ہوئ تو احمد صاحب نے اس حادثے کی تفصیل علی سے سنی تو خوش بھی ہوئے کہ انکے پیارے بیٹے نے اپنی جان داؤ پر لگاکر انکے عہد کو وفا کیا اور دکھی بھی ہوئے کہ اگر وہ بروقت نہ  پہنچتے تو۔۔

اور اس سے آگے وہ کچھ سوچ ہی نہ سکے۔۔

مایوس ہونے کی بجائے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے کہ اللہ نے انکو سعادت مند بیٹا عطا فرمایا اورانھوں نے خود سے ایک عہد کیا اور مسکرا دیے۔

4 comments: