Haj mah e Zilhaj ka taruf urdu column by Komal Sultan Khan
"حج ماہِ ذی الحجہ کا تعارف"
کومل سلطان خان
کر رہے ہیں جانے والے حج کی اب تیاریاں
رہ نا جاؤ میں کہیں کر دو کرم پھر یا نبی.. صلی اللہ علیہ وسلم
آمین ثم آمین یارب العالمین
ماہِ ذی الحجہ اسلامی سال کا بارھواں اور آخری قمر ی مہینہ ہے۔ اس مہینے کو ذی الحجہ کہنے کی کئی وجوہات ہو سکتی
ہیں(۱) چونکہ سال میں صرف ایک بار ہی حج ہو سکتا ہے جو اِس مہینے میں کیا جاتا ہے اس لئے اسے ذوالحجہ کہا جاتا ہے۔
(2) اِس مہینے کے احترام پر ایک اسلامی سال مکمل ہو جاتا ہے اس لئے اسے ذوالحجہ کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
(3) اس مہینے میں فریضہ حج ادا کیا جاتا ہے اسی مناسبت سے اسے ذوالحجہ کہہ دیا گیا۔
(واللہ اعلم)۔
ماہِ ذی الحجہ کے دیگر نام:
ماہِ ذی الحجہ کو دورہِ جاہلیت میں “برك” اور “مسبل” بھی کہا جاتا تھا۔
ماہِ ذی الحجہ کی فضیلت
(۱) ذوالحجہ بھی بڑا بابرکت مہینہ ہے، یہ ان چار بزرگ مہینوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
Surat No 9 : سورة التوبة - Ayat No 36
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے
ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ کے صاحبزادے ( عبدالرحمٰن ) نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ( چوتھا ) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔“
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
دسویں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا، خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو! آج کون سا دن ہے؟ لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا اور یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا شہر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا مہینہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے، اس کلمہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دہرایا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا اے اللہ! کیا میں نے ( تیرا پیغام ) پہنچا دیا اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے، لہٰذا حاضر ( اور جاننے والے ) غائب ( اور ناواقف لوگوں کو اللہ کا پیغام ) پہنچا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دیکھو میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔
(2) اسی طرح یہ اَشْھُرِ حَج کا آخری مہینہ ہے جن کا قرآن پاک میں یوں ذکر ملتا ہے:
Surat No 2 : سورة البقرة - Ayat No 197
حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالٰی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو ، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالٰی کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو ۔
(3) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چار عمروں میں سے ایک عمرہ اسی مہینے میں حجتہ الوداع کے ساتھ ادا فرمایا تھا۔
(4) ماہِ ذی الحجہ وہ عظیم اور بابرکت مہینہ ہے جس میں دُنیا بھر سے مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے بیت اللہ شریف پہنچتے ہیں۔ اور اسے ادا کرتے ہیں۔
(5) ماہِ ذی الحجہ اسلامی سال کا آخری قمری مہینہ ہے، اس کے اختتام پر اسلامی سال کی تکمیل ہوتی ہے۔
اور جو خبر چل رہی ہے کہ سعودی عرب نے اکیلی عورت کو حج کیلئے آنے کی اجازت دے دی ہے، جس پر سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے اس معاملے میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ اونٹوں اور گدھوں پر سفر ہوتا تھا جو کہ ایک مشکل ترین سفر تھا اور سفر میں کئی دن گزر جاتے تھے،
ایسا سفر کسی اکیلی عورت کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے اس کی جان مال اور عزت کی حفاظت کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی تدبیر اختیار کی اور یہ حکم دیا کہ عورت اپنے محرم مرد کے ساتھ ہی سفر کیا کرے، یہاں تک کہ حج کیلئے بھی یہی حکم دیا کہ عورت اپنے محرم کے ساتھ ہی حج کرنے جاۓ یہ حکم کوئی دینی حکم یا حج کا رکن نہیں تھا بلکہ دنیاوی طور پر ایک وقتی تدبیر تھی، امت میں غلطی یہاں سے ہوئی کہ اس نے اس حکم کو دینی حکم سمجھ لیا۔ یہ غلطی پوری امت سے نہیں ہوئی بلکہ امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ تو شروع سے ہی اس کے قائل ہیں کہ حج کیلئے عورت کے ساتھ مرد کا جانا شرط نہیں ہے
اس کی دلیل ایک حدیث سے بھی ملتی ہے
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"اے عدی! اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔"
"عدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک اکیلی عورت کو تو خود دیکھ لیا کہ حیرہ سے سفر کے لیے نکلی اور (مکہ پہنچ کر) اس نے کعبہ کا طواف کیا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی سے (ڈاکو وغیرہ) خوف نہیں تھا۔"
(صحیح البخاری - حدیث 3595)
امام محمد ابن رشد نے امام مالک اور امام شافعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حج میں محرم یا شوہر کا ہونا شرط نہیں، اگر عورت کو محفوظ رفاقت مل جائے تو وہ حج کے لیے نکل سکتی ہے۔ (بداية المجتھد)
لہذا سعودی عرب کی طرف سے کیا جانے والا فیصلہ درست ہے اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، اسلام آسان ہے اس میں سختی نہیں کرنی چاہیے اور احادیث پر تدبر کرنا چاہیے کہ حدیث میں دیا جانے والا حکم کس نوعیت کا ہے اور کس وجہ سے دیا جا رہا ہے، احادیث میں بعض احکامات وقتی ہوتے ہیں لیکن لوگ انہیں دین کے ابدی احکامات سمجھنے کی غلطی کر لیتے ہیں۔ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﮰ۔
No comments