Noor ak bahadr lrki afsana by Abrish Noor


     آبرش نور

عنوان

نور ایک باہمت لڑکی


ستاروں کی چھاؤں میں جائے نماز بچھائے نور کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔اور اب تو وہ باقاعدہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔اپنے رب کے سامنے اپنے دل کی ایک ایک بات بیان کر کے وہ کافی پرسکون ہو گئی تھی۔اطمینان کی لہر اس کے ایک ایک جوڑ کو چھو کر گزری تھی۔وہیں سجدے میں سر رکھے رب سے باتیں کرتے کرتے وہ سو گئی۔

اس کی جب آنکھ کھلی تو نیند میں دیکھے خواب کا اثر اب تک اس کے چہرے سے ٹپک رہا تھا۔رب کی چاہت پر اس کا دل بے اختیار سجدے میں گر گیا۔

               ______________

نور کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے تھا۔اس کے باپ کا سایہ بچپن میں ہی اس کے سر سے اٹھ گیا تھا اور ماں بہت سادہ تھی۔۔اس قدر سادہ کے اپنی بیٹی کی مشکلات میں بھی وہ اس کے ساتھ نہ کھڑی ہوتی تھی۔وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور نور کی ذندگی الجھتی رہی۔۔کم عمری میں ہی اس کی ماں نے اس کے کزن سے اس کے شادی کر دی۔۔۔

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کون ہوں میں ایک عام سی لڑکی لیکن میرے خواب تو عام نہیں ہیں بڑے بڑے ہیں۔آسمان کی بلندیوں کی طرح بہت ہی بڑے ہیں ایک دن ان کی چمک سورج کی طرح ہمیں روشن کر دے گی انشاءاللہ۔

ان خوابوں کی چمک سے جب اس کی آنکھیں چمکتی تو بہت حسین لگتی جیسے آسمان پر چمکتا چاند۔۔۔

شادی کے بعد جب نور کی ذندگی میں کوئی ایک پل بھی سکون کا نہ آیا تو وہ اکثر یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتی کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔۔

                  __________


نور کے شوہر کا نام علی تھا۔۔ایک اچھے خاصے امیر باپ کا خون اس کی رگوں میں گردش کر رہا تھا۔۔شادی کے وقت اس کی عمر بھی کوئی بہت زیادہ تو نہیں تھی۔۔کچھ عرصہ تو دونوں پرسکون رہے۔لیکن نور کی والدہ علی کو گھر داماد بنا کے لے آئیں۔

یہیں سے نور کی ذندگی کا بدترین وقت شروع ہوا۔۔

               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی کے والدین اس کو اچھے برے کام کرنے یا روکنے سے بہت دور ہوگئے۔اس نے شراب نوشی کر کے بیوی کو مارا پیٹا کئی عشق معاشقے چلائے لیکن اس کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔نور ایک یتیم لڑکی تھی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے والا کوئی اپنا نہیں تھا۔وہ نفل پڑھ کے رب سے دعائیں مانگتی رہتی۔۔

             __________

اللہ کسی آنسو کو رائیگاں نہیں کرتا وہ تو سب سے بڑا ہمدرد ہے نا پھر وہ نور کو بھی مسلسل مار کھانے کے لئے کیسے چھوڑ دیتا۔۔۔اللہ نے نور کو خوبصورت ذہین بچوں سے نوازا اور اس نے بھی ان کی تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ لگا دیا۔۔

              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تقریباً اس کے سب بچے پڑھ چکے ہیں لیکن اس کی آزمائش اب بھی ختم نہیں ہوئی۔۔اس کے بچے اس کے احسان مند نہیں رہے بلکہ وہ تو اس کو کسی خاطر ہی نہیں لاتے۔۔سب اپنی اپنی ذندگیوں میں مگن اپنی اس ما۔ کو بھول گئے جس نے ہر تکلیف صرف یہ سوچ کر سہی تھی کہ اس کے بچے اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں اور وہ ایک دن اس کی ہر تکلیف کا مرہم بن جائیں گے لیکن وہ تو یہ یاد رکھنا ہی نہیں چاہتے کہ ان کی ماں نے کیا کیا کیا۔۔

                 ______

نور اب رب کے بھروسے پر ذندگی کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ اٹھائے چل رہی ہے۔۔سارے درد رب کو سنا کر اس سے بس بہترین آخرت کی امید رکھتی ہے۔۔کئی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی یہ لڑکی آج بھی پوری ہمت سے حالات کا مقابلہ کر رہی۔ایک دن حالات اس کے حق میں ہوں گے کیونکہ رب طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔

No comments