Fajar | فجر افسانہ ازقلم حرا اخلاق


 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

عنوان: فجر


"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ اللہ تم سے ناراض ہے؟"

(اس نے بہت حیرانی سے سوال پوچھنے والی اپنی بہترین دوست کی طرف دیکھا.)

کیوں کہ وہ ہے۔ (آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سپاٹ چہرہ)

نہیں،وہ نہیں ہے!

وہ جب ناراض ہوتا ہے مجھ سے میری فجر چھین لیتا ہے۔ (اپنے ہاتھوں کی پرف دیکھتے ہوئے)

کیا تم نہیں جانتی کتنے دن سے مجھ سے میری فجر چھین لی گئی ہے۔ یقیناً وہ ناراض ہے۔ مگر وہ کیوں ناراض ہے۔ وہ جانتا ہے میرا اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ وہ بھی ناراض ہو جائے گا تو میں کہاں جاؤں گی؟

 (عائزہ کو لگا وہ خودکلامی کر رہی ہے۔) 

میرا اس کے بغیر کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔۔پھر بھی۔۔۔پھر بھی وہ مجھ سے ناراض ہو جاتا ہے۔ تم تو جانتے ہو نا میرا تمہارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔۔

(اور اب جب عائزہ کو یقین ہو گیا کہ وہ بھول چکی ہے کہ عائزہ اس کے ساتھ بیٹھی ہے تو اس نے اسے ٹوکا۔)

ماریہ! خاموش ہو جاؤ۔ وہ نہیں ہے ناراض۔

"کیا تم دیکھتی نہیں؟ میرے یہ ہاتھ؟ یہ اپنا حسن کھو چکے ہیں۔ یہ میرے چہرے پر بس سفیدی رہ گئی ہے نور نہیں ہے۔ مجھے سفیدی نہیں چاہیے عائزہ مجھے تو نور چاہیے۔ اس کا نور۔۔۔" (جواب کا انتظار اور عائزہ کو خدا حافظ کیے بغیر ہی وہ وہاں سے چلی آئی عائزہ بھی اپنے گھر چلی گئی۔)

__________________________

آج میں سوؤں گی ہی نہیں۔ فجر پڑھ کے ہی سوؤں گی۔ تم دیکھنا اللہ آج میں ضرور پڑھوں گی فجر۔ تم مان جاؤ نا۔۔ (اس نے اتنے لاڈ سے کہا کہ اسے یقین ہو گیا اب اللہ اس کی رد نہیں کرے گا وہ ج فجر ضرور پڑھ لے گی۔)

اور فجر ہونے سے دس منٹ پہلے۔۔وہ سو گئی۔

____________________

صبح آٹھ بجے کے قریب درد سے اس کی آنکھ کھلی۔اس کے کان میں شدید درد تھا۔ اٹھتے ہی جو سب سے پہلا خیال اسے آیا۔۔۔ "آج۔۔۔آج بھی میری فجر نہیں ہوئی۔" مگر اس نے تو بڑے مان سے مانگا تھا۔ کان کا درد شدید تھا مگر وہ۔۔۔بےحس۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔ کیا اس کا دل ج پھٹ جائے گا؟ مگر دل میں تو کہیں درد ہی نہیں ہے۔ 

"تم ابھی بھی۔۔۔کیوں ناراض ہو؟" 

وہ جانتی تھی شیطان اس کے کان میں پیشاب کر گیا تھا جبھی اس کے کان میں درد ہو رہا تھا۔ اسے یاد تھی وہ حدیث کہ جب فجر میں آنکھ نہیں کھلتی تو شیطان نے کان میں پیشاب کر دیا ہوتا ہے۔ اور اسے خود سے گِھن آنے لگی۔

کان درد کی دوا لینے کے بعد اس نے پھر سے۔۔آج پھر سے قضا نماز پڑھی۔ بغیر دعا مانگے وہ آ کے سو گئی۔ وہ سو ہی جانا چاہتی تھی۔ جو وقت پر نہ اٹھ سکی اب اٹھ کے کیا کرے گی۔

_________________________

ماریہ تم جانتی ہو آنکھ نہ کھلے تو گناہ نہیں ہوتا پھر تم کیوں اس بات کو خود پر اتنا حاوی کر رہی ہو؟ جیسے ہی آنکھ کھلتی ہے تو پڑھ لیتی ہو نا؟ تو بس تمہیں گناہ نہیں ہوتا۔

(عائزہ پھر اسے سمجھا رہی تھی جسے سمجھانا ناممکن تھا.)

اس کو میں نے اتنی جرأت دے دی کہ وہ میرے کان میں پیشاب کر گیا۔ میں نے کیسے کرنے دیا اسے یہ؟

"ماریہ۔۔۔۔تم ایسا مت سوچو۔"

"تم پاگل ہو گئی ہو عائزہ۔ تم جانتی ہو اچھی طرح جانتی ہو کہ وہ مجھ سے ناراض ہے اور تم چاہتی ہو میں ٹھیک ہو جاؤں؟ کیسے؟؟؟ وہ نہیں مان رہا عائزہ۔۔وہ نہیں مان رہا۔"

"تو جاؤ پھر مناؤ اسے۔"

"میں۔۔۔۔وہ نہیں مان رہا۔"

"کوشش تو کرو۔ وہ تو بس دیکھ رہا ہے اس کی جدائی میں تمہارا کیا حال ہوتا ہے۔ تم کیسے تڑپتی ہو۔ کیسے سسکتی ہو۔ وہ تو بس بندے کی تڑپ دیکھتا ہے نا؟ جاؤ اپنی پوری جان لگا دو۔ رو، گڑگڑاؤ، تڑپو۔ دکھاؤ اسے کہ اس کے بغیر تمہاری کیا حالت ہو رہی ہے۔ بتاؤ اسے کہ تمہیں اس سے کتنی محبت ہے۔ اور وہ تم سے ناراض ہو گیا ہے تو تمہارا کیا حال ہو گیا ہے۔ اسے اظہارِ محبت ہسند ہے ماریہ۔ تم تو جانتی ہو نا پیاس بجھانے کے کیے ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں پھر وہ چاہے جسمانی پیاس ہو یا روحانی۔"

_______________________________

وہ بس۔۔۔رو رہی تھی۔ یوں جیسے کسی کے مر جانے پہ روتے ہیں۔ ہچکیوں سے،سسکیوں سے۔ اور اگر اب بھی وہ ایسے نہ روتی تو۔۔۔۔۔تو اور وہ کیا کرتی؟ 

"مجھے میری فجر لوٹا دے اللہ"

"مجھ سے ناراض نہ ہو."

"تُو تو میری جان ہے نا!"

وہ یہی کلمات دہرائے جا رہی تھی۔ اور بلآخر اس کی فریاد پر کُن کہہ دیا گیا تھا۔اسے اس کی فجر واپس کر دی گئی تھی۔ اور عشق تو یونہی تڑپنے سے ملتا ہے۔ پھر وہ فجر سے ہو یا ظہر سے۔ ہاں وہ نہیں جان پائی تھی کہ وہ اس سے کیوں ناراض تھا۔ بس اسے اتنا پتہ تھا کہ اب وہ اس سے راضی ہے اور اب وہ دوبارہ اسے ناراض نہیں ہونے دے گی۔ 

ختم شد۔۔۔

وہ کبھی کبھار یونہی ناراض ہو جاتا ہے صرف ہمیں خود سے قریب کرنے کے لیے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم اس کی جدائی میں کیسے جی پاتے ہیں۔ اور اللہ تو بس بندے کی تڑپ دیکھتا ہے نا۔ اگر ماریہ صرف چند دن فجر سے دوری پر اتنا تڑپ سکتی ہے تو ہمیں خود سے پوچھنا ہے ہماری فجر کتنے دن سے نہیں ہو رہی؟ اور ہم کتنا تڑپتے ہیں؟ کیا ہمیں رب سے محبت نہیں ہے؟  ہم کتنی نمازیں نہیں پڑھتے؟ اور کتنی بار نماز چھوڑنے پر ہماری حالت عجیب ہو جاتی ہے؟ ہم دنیاوی غموں کی وجہ سے راتوں کو سو نہیں پاتے اور اس سے اتنا بھی پیار نہیں کرتے کہ اس کے لیے وقت رہتے جاگ جائیں۔ کیا نماز اتنی غیر اہم ہو گئی ہے؟ اور دنیاوی مصروفیات اتنی اہمیت کی حامل۔۔۔ اقبال نے دردناک شعر کہا ہے:

ع کس قدر گراں تم پہ صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے!!!


"از حرا اخلاق"

No comments