16 December black day Afsaana by Swaira Arif Mughal
نام : سویرا عارف مغل
شہر : گجرات
صنف : افسانہ نگاری
عنوان : " سانحہ اے پی ایس 16 دسمبر "
عائشہ کشمیر میں رہنے والی چھٹی جماعت کی طلبہ 16 دسمبر کو سکول سے واپس آئی تو کیا دیکھتی ہے اس کی اماں نہایت پریشان ہیں اور کہتی ہیں عائشہ کھانا کھانے کے بعد آج تم اپنے چھوٹے بھائی کو سکول سے لینے مت جانا میں خود اسے لے کر آؤں گی جب تک میں نہیں آجاتی تم گھر کا دروازہ بند کرکے رکھنا اور اپنی کتابیں سمیٹ دو ساری تاکہ کسی کو پتا نا چلے کہ اس گھر سے بچے قریبی گاؤں میں سکول پڑھنے جاتے ہیں عائشہ نے حیران کن چہرے سے اپنی والدہ کو دیکھا اور پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں اماں؟ میں اپنی کتابیں کیوں چھپا دوں اور علی کو سکول سے کیوں نا لینے جاؤں ؟ والدہ نے عائشہ کو گھورتے ہوئے ڈانٹ دیا کہ جو فقط جو کہہ رہی ہوں وہی کرو۔
علی کی والدہ اس کو گھر لے کر آئیں تو علی کی ٹیچر نے کہا کہ اب کچھ دن آپ اپنے بچوں کو گھر ہی رکھنا کیونکہ ملک کے حالات بہت سخت خراب ہیں سکول بند رہیں گے بچوں کو تعلیم کی بنا پر حراساں کیا جارہا ہے تاکہ وہ گھروں میں محصور رہیں اور تعلیم حاصل نا کرسکیں ۔ علی کی اور عائشہ کی والدہ کا چہرہ افسردہ دکھائی دینے لگا شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنے دونوں بچوں کو پڑھا لکھا کر کچھ بڑا بنانا چاہتی تھی وہ گھر میں سلائی کڑھائی کا کام کرکے اور اپنے مرحوم شوہر کے ماہانہ وظیفے (پینشن) سے اپنا گھر چلاتی ۔
16 دسمبر کو پشاور آرمی پبلک سکول میں جو حملہ ہوا اس کے وجہ سے ملک کے سکول ، دفاتر بند ہوگئے اور علی اور عائشہ کی والدہ کی طرح پاکستان کی تمام مائیں اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے اور تعلیم دلوانے سے خوفزدہ ہونے لگیں کیونکہ اس واقع میں کئی ماؤں کے لال اللہ کو پیارے ہوگئے کئی ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں کئی بہنوں کے بھائی چھن گئے ۔
علی اور عائشہ ایک دن اپنی والدہ سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوگیا اماں اب آپ ہمیں شام کو پڑھاتی نہیں بیٹھا کر ورنہ آپ تو بہت ڈانٹتی تھی کہ ہم پڑھتے نہیں ہر وقت کھیلتے رہتے ہیں اماں میں بڑے ہوکر ڈاکٹر بنوں گی اور علی فوج میں جائے گا اس طرح ہم اماں آپ کا اور بابا کا سر فخر سے بلند کریں گے ۔
بولیں نا اماں میں بنوں گی نا ڈاکٹر اور علی جائے گا فوج میں اماں بول کیوں نہیں رہی آپ ؟
والدہ نے کہا چپ کرکے بیٹھ جاوں جو نکلے تھے ڈاکٹر انجینئر بننے ان کے جسم چھنی چھنی کردئیے گئے تم دونوں کو میں کھونا چاہتی تمہارے ابا کی وفات کے بعد اب تم دونوں کے علاؤہ میرے پاس ہے ہی کیا ؟
چپ کرکے بیٹھ جاؤ اور یہ کتابیں بیگ میں واپس رکھ دو تمہارے ابا بھی فوج میں ہی تھے میں نے ان کو بھی کھودیا ایک صبح مجھے اطلاع ملی کے تمہارے ابا کی وفات ہوگئی ہے تو میں نے اب ان کو بھی کھودیا ہے سارا سارا دن سلائی کے کام پر لگادیتی ہوں صرف تم دونوں کی اچھی پرورش کرنے کی خاطر کیا تم دونوں سوچ سکتے ہو اگر میں تم دونوں کو ہی کھو دوں تو پھر میرے پاس بچے گا ہی کیا ؟
بالکل اسی طرح آج صبح میں نے ایک خبر سنی ٹی وی پر کہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کو دہشت گردوں نے سروں میں گولیاں مار کر چھنی چھنی کردیا گیا ان کے جسموں کے ٹکڑے بھی نہیں بچے کیا تم لوگ ایسی موت مرنا چاہتے ہو علی اور عائشہ کی والدہ بات کرتے ہوئے بہت رو رہی تھیں بچوں نے ماں کے آنسو صاف کیے اور گلے لگا لر حوصلہ دیا کہ ہم آپ کو کبھی کہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے والدہ خاموش ہورہی ۔ کچھ دنوں بعد علی اور عائشہ کی استانی صاحبہ کا فون آیا کہ بچوں کو سکول بھیج دیا جائے والدہ اپنے خوف کا اظہار استانی صاحبہ سے کرتی ہیں کہ مجھے ڈر لگتا ہے اب اپنے بچوں کو سکول بھجیتے ہوئے استانی صاحبہ کافی تسلیاں دیتی ہیں کہ آپ تحمل سے کام لیں آپ کے بچے نہایت قابل اور محنتی ہیں ان میں پڑھنے کی لگن ہے آنے والے وقت کے خوف سے آپ انہوں مزید یوں گھر میں بٹھا کر نہیں رکھ سکتیں ۔
والدہ بات کو سمجھ جاتی ہیں اور بچوں کو سکول کے لیے بھیج دیتی ہیں بچے سکول جاتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں سکول کے گیٹ کے اوپر والے حصے میں جو جالیاں خالی تھیں جہاں سے باہر کا روڈ نظر آتا تھا وہ بالکل بند کردی گئی سکول میں موجود جو کھڑکیاں تھیں وہ مکمل بند کردی گئی پشاور اے پی ایس واقع کے بعد تاکہ کہیں سے کوئی دہشت گرد حملہ آور نا ہوسکے پرنسپل صاحبہ کا کہنا تھا کہ ایسا انہوں نے اس لیے کیا ہے کہ علاقے کے کسی فرد کو پتا نا چل سکے کہ یہاں بچے پڑھتے ہیں یہ بات سن کر تمام طالبات میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور عائشہ کا دل خوف سے دھک دھک کرنے لگا اسے معلوم ہوگیا کہ ہماری پرنسپل صاحبہ اسی موضوع کے متعلق گفتگو کررہی ہیں جس سے ہمارے ملک کے حالات کافی خراب ہوگئے علی تو سکول میں گرنے والے ایک چھوٹے سے ڈیسک کی آواز سے بھی ڈر گیا اور زور زور سے رونے لگا اس کو روتا دیکھ کر بچوں نے بھی چیخیں مارنی شروع کردیں اور دوسرے ننھے ننھے بچے بھی رونا شروع ہوگئے اس کے ساتھ ہی ان کی استانی صاحبہ نے علی کو بہت چپ کروانے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہیں تو انہوں نے اس کی والدہ کو فون کیا کہ اسے آکر لے جائیں والدہ تو عائشہ کو بھی انہی نے چھٹی دلوائی اور گھر لے کر چلی گئیں ۔ علی اور عائشہ جیسے ہی گھر پہنچے تو اپنی والدہ کو کہنے لگے ہمیں ڈر لگتا ہے ہم نے صبح سکول نہیں جانا اماں
استانی صاحبہ کسی دہشت گرد کا بتارہی تھی اگر اس نے ہمیں سکول جاتا ہوا دیکھ لیا تو وہ ہمیں بھی مار ڈالے گا ہم نہیں جانا آج کے بعد سکول ہمیں ڈر لگتا ۔
والدہ نے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا تم لوگوں کو مانا کہ اب تم لوگوں کے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے مگر ماں ہے تمہارے سر پر ابھی
دہشت گرد کو بولوں گی میرے ننھے ننھے بچوں کو مار کر تجھے کیا ملے گا مجھے مار دے مگر میرے بچوں کو نا مار خدارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر بچے بھی رونے لگے ماں نے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور انہیں ہر صورت تعلیم جاری رکھنے کا کہا ۔
ماں تو پھر ماں ہوتی ہے تو پھر ذرا سوچئیے جب علی اور عائشہ کی ماں اپنے بچوں کو کھونے کا تصور کرکے بھی ڈر جاتی ہے تو وہ مائیں جن کے بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں تھما دیا گیا ان ماؤں پر کیا بیتی ہوگی ان بچیوں پر کیا بیتی ہوگی جن کے صرف ایک ایک ہی بھائی تھے جس طرح عائشہ اور علی کے علاقے میں خوف کی فضا پھیل گئی ایسا واقع سن کر تو جس علاقے میں یہ واقع ہوا تھا اور جن گھروں کے ساتھ ہوا ان افراد کو کیسے سکون آئے گا اس 16 دسمبر بھی ان کے زخم تازہ ہوجائیں گے اللہ ان تمام شہداء طالب علموں کے درجات بلند فرمائے آمین ۔
جزاک اللہ
No comments